مشعل امید تھامو رہ نما جیسا بھی ہے
اب تو چلنا ہی پڑے گا راستا جیسا بھی ہے
کس لیے سر کو جھکائیں اجنبی کے سامنے
اس سے ہم واقف تو ہیں اپنا خدا جیسا بھی ہے
کس کو فرصت تھی ہجوم شوق میں جو سوچتا
دل نے اس کو چن لیا وہ بے وفا جیسا بھی ہے
ساری دنیا میں وہ میرے واسطے بس ایک ہے
پھول سا چہرہ ہے وہ یا چاند سا جیسا بھی ہے
فصل گل میں بھی دکھاتا ہے خزاں دیدہ درخت
ٹوٹ کر دینے پہ آئے تو گھٹا جیسا بھی ہے
غزل
مشعل امید تھامو رہ نما جیسا بھی ہے
افتخار نسیم