EN हिंदी
مشعل امید تھامو رہ نما جیسا بھی ہے | شیح شیری
mishal-e-ummid thamo rahnuma jaisa bhi hai

غزل

مشعل امید تھامو رہ نما جیسا بھی ہے

افتخار نسیم

;

مشعل امید تھامو رہ نما جیسا بھی ہے
اب تو چلنا ہی پڑے گا راستا جیسا بھی ہے

کس لیے سر کو جھکائیں اجنبی کے سامنے
اس سے ہم واقف تو ہیں اپنا خدا جیسا بھی ہے

کس کو فرصت تھی ہجوم شوق میں جو سوچتا
دل نے اس کو چن لیا وہ بے وفا جیسا بھی ہے

ساری دنیا میں وہ میرے واسطے بس ایک ہے
پھول سا چہرہ ہے وہ یا چاند سا جیسا بھی ہے

فصل گل میں بھی دکھاتا ہے خزاں دیدہ درخت
ٹوٹ کر دینے پہ آئے تو گھٹا جیسا بھی ہے