سورج نئے برس کا مجھے جیسے ڈس گیا
تجھ سے ملے ہوئے مجھے یہ بھی برس گیا
بہتی رہی ندی مرے گھر کے قریب سے
پانی کو دیکھنے کے لیے میں ترس گیا
ملنے کی خواہشیں سبھی دم توڑتی گئیں
دل میں کچھ ایسے خوف بچھڑنے کا بس گیا
دیوار و در جھلستے رہے تیز دھوپ میں
بادل تمام شہر سے باہر برس گیا
تلووں میں نرم گھاس بھی چبھنے لگی نسیمؔ
صحرا کچھ اس طرح مرے پیروں میں بس گیا
غزل
سورج نئے برس کا مجھے جیسے ڈس گیا
افتخار نسیم