کوششیں ہم نے کیں ہزار مگر
عشق میں ایک معتبر نہ ہوئی
حسرتؔ موہانی
خوب رویوں سے یاریاں نہ گئیں
دل کی بے اختیاریاں نہ گئیں
حسرتؔ موہانی
کھینچ لینا وہ مرا پردے کا کونا دفعتاً
اور دوپٹے سے ترا وہ منہ چھپانا یاد ہے
حسرتؔ موہانی
خندۂ اہل جہاں کی مجھے پروا کیا ہے
تم بھی ہنستے ہو مرے حال پہ رونا ہے یہی
حسرتؔ موہانی
کٹ گئی احتیاط عشق میں عمر
ہم سے اظہار مدعا نہ ہوا
حسرتؔ موہانی
کہاں ہم کہاں وصل جاناں کی حسرتؔ
بہت ہے انہیں اک نظر دیکھ لینا
حسرتؔ موہانی
کبھی کی تھی جو اب وفا کیجئے گا
مجھے پوچھ کر آپ کیا کیجئے گا
حسرتؔ موہانی
جو اور کچھ ہو تری دید کے سوا منظور
تو مجھ پہ خواہش جنت حرام ہو جائے
حسرتؔ موہانی
جبیں پر سادگی نیچی نگاہیں بات میں نرمی
مخاطب کون کر سکتا ہے تم کو لفظ قاتل سے
حسرتؔ موہانی