جو وہ نظر بسر لطف عام ہو جائے
عجب نہیں کہ ہمارا بھی کام ہو جائے
شراب شوق کی قیمت ہے نقد جان عزیز
اگر یہ باعث کیف دوام ہو جائے
رہین یاس رہیں اہل آرزو کب تک
کبھی تو آپ کا دربار عام ہو جائے
جو اور کچھ ہو تری دید کے سوا منظور
تو مجھ پہ خواہش جنت حرام ہو جائے
وہ دور ہی سے ہمیں دیکھ لیں یہی ہے بہت
مگر قبول ہمارا سلام ہو جائے
اگر وہ حسن دل آرا کبھی ہو جلوہ فروش
فروغ نور میں گم ظرف بام ہو جائے
سنا ہے برسر بخشش ہے آج پیر مغاں
ہمیں بھی کاش عطا کوئی جام ہو جائے
ترے کرم پہ ہے موقوف کامرانی شوق
یہ ناتمام الٰہی تمام ہو جائے
ستم کے بعد کرم ہے جفا کے بعد عطا
ہمیں ہے بس جو یہی التزام ہو جائے
عطا ہو سوز وہ یا رب جنون حسرتؔ کو
کہ جس سے پختہ یہ سودائے خام ہو جائے
غزل
جو وہ نظر بسر لطف عام ہو جائے
حسرتؔ موہانی