پھر اور تغافل کا سبب کیا ہے خدایا
میں یاد نہ آؤں انہیں ممکن ہی نہیں ہے
حسرتؔ موہانی
معلوم سب ہے پوچھتے ہو پھر بھی مدعا
اب تم سے دل کی بات کہیں کیا زباں سے ہم
حسرتؔ موہانی
مانوس ہو چلا تھا تسلی سے حال دل
پھر تو نے یاد آ کے بدستور کر دیا
حسرتؔ موہانی
ملتے ہیں اس ادا سے کہ گویا خفا نہیں
کیا آپ کی نگاہ سے ہم آشنا نہیں
حسرتؔ موہانی
مجھ کو دیکھو مرے مرنے کی تمنا دیکھو
پھر بھی ہے تم کو مسیحائی کا دعویٰ دیکھو
حسرتؔ موہانی
مجھ سے تنہائی میں گر ملیے تو دیجے گالیاں
اور بزم غیر میں جان حیا ہو جائیے
حسرتؔ موہانی
منحصر وقت مقرر پہ ملاقات ہوئی
آج یہ آپ کی جانب سے نئی بات ہوئی
حسرتؔ موہانی
نہیں آتی تو یاد ان کی مہینوں تک نہیں آتی
مگر جب یاد آتے ہیں تو اکثر یاد آتے ہیں
حسرتؔ موہانی
پیغام حیات جاوداں تھا
ہر نغمۂ کرشن بانسری کا
حسرتؔ موہانی