ہم کیا کریں اگر نہ تری آرزو کریں
دنیا میں اور بھی کوئی تیرے سوا ہے کیا
حسرتؔ موہانی
ہم جور پرستوں پہ گماں ترک وفا کا
یہ وہم کہیں تم کو گنہ گار نہ کر دے
حسرتؔ موہانی
ہے وہاں شان تغافل کو جفا سے بھی گریز
التفات نگہ یار کہاں سے لاؤں
حسرتؔ موہانی
آئینے میں وہ دیکھ رہے تھے بہار حسن
آیا مرا خیال تو شرما کے رہ گئے
حسرتؔ موہانی
ہے انتہائے یاس بھی اک ابتدائے شوق
پھر آ گئے وہیں پہ چلے تھے جہاں سے ہم
حسرتؔ موہانی
گزرے بہت استاد مگر رنگ اثر میں
بے مثل ہے حسرتؔ سخن میرؔ ابھی تک
حسرتؔ موہانی
غربت کی صبح میں بھی نہیں ہے وہ روشنی
جو روشنی کہ شام سواد وطن میں تھا
حسرتؔ موہانی
غم آرزو کا حسرتؔ سبب اور کیا بتاؤں
مری ہمتوں کی پستی مرے شوق کی بلندی
حسرتؔ موہانی
غیر کی نظروں سے بچ کر سب کی مرضی کے خلاف
وہ ترا چوری چھپے راتوں کو آنا یاد ہے
حسرتؔ موہانی