EN हिंदी
حسرتؔ موہانی شیاری | شیح شیری

حسرتؔ موہانی شیر

75 شیر

ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشا ہے حسرتؔ کی طبیعت بھی

حسرتؔ موہانی




آئینے میں وہ دیکھ رہے تھے بہار حسن
آیا مرا خیال تو شرما کے رہ گئے

حسرتؔ موہانی




گزرے بہت استاد مگر رنگ اثر میں
بے مثل ہے حسرتؔ سخن میرؔ ابھی تک

حسرتؔ موہانی




غربت کی صبح میں بھی نہیں ہے وہ روشنی
جو روشنی کہ شام سواد وطن میں تھا

حسرتؔ موہانی




غم آرزو کا حسرتؔ سبب اور کیا بتاؤں
مری ہمتوں کی پستی مرے شوق کی بلندی

حسرتؔ موہانی




غیر کی نظروں سے بچ کر سب کی مرضی کے خلاف
وہ ترا چوری چھپے راتوں کو آنا یاد ہے

حسرتؔ موہانی




دوپہر کی دھوپ میں میرے بلانے کے لیے
وہ ترا کوٹھے پہ ننگے پاؤں آنا یاد ہے

حسرتؔ موہانی




دلوں کو فکر دوعالم سے کر دیا آزاد
ترے جنوں کا خدا سلسلہ دراز کرے

حسرتؔ موہانی




دل کو خیال یار نے مخمور کر دیا
ساغر کو رنگ بادہ نے پر نور کر دیا

حسرتؔ موہانی