اے یاد یار دیکھ کہ باوصف رنج ہجر
مسرور ہیں تری خلش ناتواں سے ہم
حسرتؔ موہانی
آرزو تیری برقرار رہے
دل کا کیا ہے رہا رہا نہ رہا
حسرتؔ موہانی
آپ کو آتا رہا میرے ستانے کا خیال
صلح سے اچھی رہی مجھ کو لڑائی آپ کی
حسرتؔ موہانی
ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشا ہے حسرتؔ کی طبیعت بھی
حسرتؔ موہانی
التفات یار تھا اک خواب آغاز وفا
سچ ہوا کرتی ہیں ان خوابوں کی تعبیریں کہیں
حسرتؔ موہانی
حسرتؔ کی بھی قبول ہو متھرا میں حاضری
سنتے ہیں عاشقوں پہ تمہارا کرم ہے آج
حسرتؔ موہانی
حسرتؔ جو سن رہے ہیں وہ اہل وفا کا حال
اس میں بھی کچھ فریب تری داستاں کے ہیں
حسرتؔ موہانی
حسرتؔ بہت ہے مرتبۂ عاشقی بلند
تجھ کو تو مفت لوگوں نے مشہور کر دیا
حسرتؔ موہانی
حقیقت کھل گئی حسرتؔ ترے ترک محبت کی
تجھے تو اب وہ پہلے سے بھی بڑھ کر یاد آتے ہیں
حسرتؔ موہانی