درد دل کی انہیں خبر نہ ہوئی
کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی
کوششیں ہم نے کیں ہزار مگر
عشق میں ایک معتبر نہ ہوئی
کر چکے ہم کو بے گناہ شہید
آپ کی آنکھ پھر بھی تر نہ ہوئی
نارسا آہ عاشقاں وہ کہاں
دور ان سے جو بے اثر نہ ہوئی
آئی بجھنے کو اپنی شمع حیات
شب غم کی مگر سحر نہ ہوئی
شب تھے ہم گرم نالہ ہائے فراق
صبح اک آہ سرد سر نہ ہوئی
تم سے کیونکر وہ چھپ سکے حسرتؔ
نگہ شوق پردہ در نہ ہوئی
غزل
درد دل کی انہیں خبر نہ ہوئی
حسرتؔ موہانی