راہ میں ملیے کبھی مجھ سے تو از راہ ستم
ہونٹ اپنا کاٹ کر فوراً جدا ہو جائیے
حسرتؔ موہانی
پرسش حال پہ ہے خاطر جاناں مائل
جرأت کوشش اظہار کہاں سے لاؤں
حسرتؔ موہانی
برسات کے آتے ہی توبہ نہ رہی باقی
بادل جو نظر آئے بدلی میری نیت بھی
حسرتؔ موہانی
دیکھا کیے وہ مست نگاہوں سے بار بار
جب تک شراب آئی کئی دور ہو گئے
she often looks my way with her intoxicating eyes
many rounds are done even before the wine arrives
حسرتؔ موہانی
دعوئ عاشقی ہے تو حسرتؔ کرو نباہ
یہ کیا کے ابتدا ہی میں گھبرا کے رہ گئے
حسرتؔ موہانی
چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانا یاد ہے
حسرتؔ موہانی
چوری چوری ہم سے تم آ کر ملے تھے جس جگہ
مدتیں گزریں پر اب تک وہ ٹھکانا یاد ہے
حسرتؔ موہانی
چھپ نہیں سکتی چھپانے سے محبت کی نظر
پڑ ہی جاتی ہے رخ یار پہ حسرت کی نظر
حسرتؔ موہانی
چھیڑا ہے دست شوق نے مجھ سے خفا ہیں وہ
گویا کہ اپنے دل پہ مجھے اختیار ہے
حسرتؔ موہانی