EN हिंदी
حیدر علی آتش شیاری | شیح شیری

حیدر علی آتش شیر

89 شیر

ایسی اونچی بھی تو دیوار نہیں گھر کی ترے
رات اندھیری کوئی آوے گی نہ برسات میں کیا

حیدر علی آتش




آئے بھی لوگ بیٹھے بھی اٹھ بھی کھڑے ہوئے
میں جا ہی ڈھونڈتا تری محفل میں رہ گیا

in your presence others were seated with charm and grace
whilst I remained unheeded, for me there was no place

حیدر علی آتش




اے فلک کچھ تو اثر حسن عمل میں ہوتا
شیشہ اک روز تو واعظ کے بغل میں ہوتا

حیدر علی آتش




آتش مست جو مل جائے تو پوچھوں اس سے
تو نے کیفیت اٹھائی ہے خرابات میں کیا

حیدر علی آتش




آسمان اور زمیں کا ہے تفاوت ہر چند
اے صنم دور ہی سے چاند سا مکھڑا دکھلا

حیدر علی آتش




آثار عشق آنکھوں سے ہونے لگے عیاں
بیداری کی ترقی ہوئی خواب کم ہوا

حیدر علی آتش




آپ کی نازک کمر پر بوجھ پڑتا ہے بہت
بڑھ چلے ہیں حد سے گیسو کچھ انہیں کم کیجئے

حیدر علی آتش




آج تک اپنی جگہ دل میں نہیں اپنے ہوئی
یار کے دل میں بھلا پوچھو تو گھر کیوں کر کریں

حیدر علی آتش




آفت جاں ہوئی اس روئے کتابی کی یاد
راس آیا نہ مجھے حافظ قرآں ہونا

حیدر علی آتش