قید مذہب کی گرفتاری سے چھٹ جاتا ہے
ہو نہ دیوانہ تو ہے عقل سے انساں خالی
حیدر علی آتش
مرد درویش ہوں تکیہ ہے توکل میرا
خرچ ہر روز ہے یاں آمد بالائی کا
حیدر علی آتش
مسند شاہی کی حسرت ہم فقیروں کو نہیں
فرش ہے گھر میں ہمارے چادر مہتاب کا
we mendicants do not long for royal quilted thrones
our homes have floors
حیدر علی آتش
مست ہاتھی ہے تری چشم سیہ مست اے یار
صف مژگاں اسے گھیرے ہوئے ہے بھالوں سے
حیدر علی آتش
مہندی لگانے کا جو خیال آیا آپ کو
سوکھے ہوئے درخت حنا کے ہرے ہوئے
حیدر علی آتش
مری طرح سے مہ و مہر بھی ہیں آوارہ
کسی حبیب کی یہ بھی ہیں جستجو کرتے
حیدر علی آتش
نہ گور سکندر نہ ہے قبر دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
حیدر علی آتش
نہ جب تک کوئی ہم پیالہ ہو میں مے نہیں پیتا
نہیں مہماں تو فاقہ ہے خلیل اللہ کے گھر میں
حیدر علی آتش
نہ پاک ہوگا کبھی حسن و عشق کا جھگڑا
وہ قصہ ہے یہ کہ جس کا کوئی گواہ نہیں
حیدر علی آتش