EN हिंदी
جب کے رسوا ہوئے انکار ہے سچ بات میں کیا | شیح شیری
jab ke ruswa hue inkar hai sach baat mein kya

غزل

جب کے رسوا ہوئے انکار ہے سچ بات میں کیا

حیدر علی آتش

;

جب کے رسوا ہوئے انکار ہے سچ بات میں کیا
اے صنم لطف ہے پردے کی ملاقات میں کیا

کوئی اندھا ہی تجھے ماہ کہے اے خورشید
فرق ہوتا نہیں انسان سے دن رات میں کیا

یار نے وعدۂ فردائے قیامت تو کیا
شک ہے اے نالۂ دل تیری کرامات میں کیا

کوئی بت خانے کو جاتا ہے کوئی کعبہ کو
پھر رہے گبر و مسلماں ہیں تری گھات میں کیا

ایک مدت سے ہوں سائل ترے دروازے پر
بوسہ یا گالی ملے گا مجھے خیرات میں کیا

ایسی اونچی بھی تو دیوار نہیں گھر کی ترے
رات اندھیری کوئی آوے گی نہ برسات میں کیا

دو گھڑی کی جو ملاقات تھی وہ بھی موقوف
ایسا پڑتا تھا خلل یار کی اوقات میں کیا

پڑھ کے خط اور بھی مایوس ہوئے وصل سے ہم
یار نے بھیجا سفر سے ہمیں سوغات میں کیا

آتش مست جو مل جائے تو پوچھوں اس سے
تو نے کیفیت اٹھائی ہے خرابات میں کیا