عجب تیری ہے اے محبوب صورت
نظر سے گر گئے سب خوب صورت
حیدر علی آتش
بھرا ہے شیشۂ دل کو نئی محبت سے
خدا کا گھر تھا جہاں واں شراب خانہ ہوا
حیدر علی آتش
بے گنتی بوسے لیں گے رخ دل پسند کے
عاشق ترے پڑھے نہیں علم حساب کو
we shall kiss your beautiful face without counting
your lover is unversed in the science of accounting
حیدر علی آتش
بیاں خواب کی طرح جو کر رہا ہے
یہ قصہ ہے جب کا کہ آتشؔ جواں تھا
حیدر علی آتش
بستیاں ہی بستیاں ہیں گنبد افلاک میں
سیکڑوں فرسنگ مجنوں سے بیاباں رہ گیا
حیدر علی آتش
برہمن کھولے ہی گا بت کدہ کا دروازہ
بند رہنے کا نہیں کار خدا ساز اپنا
حیدر علی آتش
بندش الفاظ جڑنے سے نگوں کے کم نہیں
شاعری بھی کام ہے آتشؔ مرصع ساز کا
حیدر علی آتش
بحر ہستی سا کوئی دریائے بے پایاں نہیں
آسمان نیلگوں سا سبزۂ ساحل کہاں
حیدر علی آتش
بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرۂ خوں نہ نکلا
حیدر علی آتش