طبل و علم ہی پاس ہے اپنے نہ ملک و مال
ہم سے خلاف ہو کے کرے گا زمانہ کیا
حیدر علی آتش
سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا
حیدر علی آتش
سوائے رنج کچھ حاصل نہیں ہے اس خرابے میں
غنیمت جان جو آرام تو نے کوئی دم پایا
حیدر علی آتش
شیریں کے شیفتہ ہوئے پرویز و کوہ کن
شاعر ہوں میں یہ کہتا ہوں مضمون لڑ گیا
حیدر علی آتش
شہر میں قافیہ پیمائی بہت کی آتشؔ
اب ارادہ ہے مرا بادیہ پیمائی کا
حیدر علی آتش
شب وصل تھی چاندنی کا سماں تھا
بغل میں صنم تھا خدا مہرباں تھا
حیدر علی آتش
سختیٔ راہ کھینچیے منزل کے شوق میں
آرام کی تلاش میں ایذا اٹھائیے
حیدر علی آتش
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزارہا شجر سایہ دار راہ میں ہے
حیدر علی آتش
رکھ کے منہ سو گئے ہم آتشیں رخساروں پر
دل کو تھا چین تو نیند آ گئی انگاروں پر
حیدر علی آتش