آپ کی نازک کمر پر بوجھ پڑتا ہے بہت
بڑھ چلے ہیں حد سے گیسو کچھ انہیں کم کیجئے
حیدر علی آتش
آج تک اپنی جگہ دل میں نہیں اپنے ہوئی
یار کے دل میں بھلا پوچھو تو گھر کیوں کر کریں
حیدر علی آتش
آفت جاں ہوئی اس روئے کتابی کی یاد
راس آیا نہ مجھے حافظ قرآں ہونا
حیدر علی آتش
آدمی کیا وہ نہ سمجھے جو سخن کی قدر کو
نطق نے حیواں سے مشت خاک کو انساں کیا
حیدر علی آتش
الٰہی ایک دل کس کس کو دوں میں
ہزاروں بت ہیں یاں ہندوستان ہے
حیدر علی آتش
کوئی بت خانہ کو جاتا ہے کوئی کعبہ کو
پھر رہے گبر و مسلماں ہیں تری گھات میں کیا
حیدر علی آتش
کسی نے مول نہ پوچھا دل شکستہ کا
کوئی خرید کے ٹوٹا پیالہ کیا کرتا
حیدر علی آتش
کسی کی محرم آب رواں کی یاد آئی
حباب کے جو برابر کبھی حباب آیا
حیدر علی آتش
خدا دراز کرے عمر چرخ نیلی کی
یہ بیکسوں کے مزاروں کا شامیانہ ہے
حیدر علی آتش