EN हिंदी
غلام مرتضی راہی شیاری | شیح شیری

غلام مرتضی راہی شیر

47 شیر

اس نے جب دروازہ مجھ پر بند کیا
مجھ پر اس کی محفل کے آداب کھلے

غلام مرتضی راہی




یاروں نے میری راہ میں دیوار کھینچ کر
مشہور کر دیا کہ مجھے سایہ چاہئے

غلام مرتضی راہی




یہ دور ہے جو تمہارا رہے گا یہ بھی نہیں
کوئی زمانہ تھا میرا گزر گیا وہ بھی

غلام مرتضی راہی




یہ لوگ کس کی طرف دیکھتے ہیں حسرت سے
وہ کون ہے جو سمندر کے پار رہتا ہے

غلام مرتضی راہی




یوں ہی بنیاد کا درجہ نہیں ملتا کسی کو
کھڑی کی جائے گی مجھ پر ابھی دیوار کوئی

غلام مرتضی راہی




زبان اپنی بدلنے پہ کوئی راضی نہیں
وہی جواب ہے اس کا وہی سوال مرا

غلام مرتضی راہی




ایک دن دریا مکانوں میں گھسا
اور دیواریں اٹھا کر لے گیا

غلام مرتضی راہی




اب اور دیر نہ کر حشر برپا کرنے میں
مری نظر ترے دیدار کو ترستی ہے

غلام مرتضی راہی




اب جو آزاد ہوئے ہیں تو خیال آیا ہے
کہ ہمیں قید بھلی تھی تو سزا کیسی تھی

غلام مرتضی راہی