اب مرے گرد ٹھہرتی نہیں دیوار کوئی
بندشیں ہار گئیں بے سر و سامانی سے
غلام مرتضی راہی
اے مرے پایاب دریا تجھ کو لے کر کیا کروں
ناخدا پتوار کشتی بادباں رکھتے ہوئے
غلام مرتضی راہی
اپنی قسمت کا بلندی پہ ستارہ دیکھوں
ظلمت شب میں یہی ایک نظارہ دیکھوں
غلام مرتضی راہی
اپنی تصویر کے اک رخ کو نہاں رکھتا ہے
یہ چراغ اپنا دھواں جانے کہاں رکھتا ہے
غلام مرتضی راہی
چاہتا ہے وہ کہ دریا سوکھ جائے
ریت کا بیوپار کرنا چاہتا ہے
غلام مرتضی راہی
چلے تھے جس کی طرف وہ نشان ختم ہوا
سفر ادھورا رہا آسمان ختم ہوا
غلام مرتضی راہی
دیکھنے سننے کا مزہ جب ہے
کچھ حقیقت ہو کچھ فسانہ ہو
غلام مرتضی راہی
دل نے تمنا کی تھی جس کی برسوں تک
ایسے زخم کو اچھا کر کے بیٹھ گئے
غلام مرتضی راہی
دوسرا کوئی تماشہ نہ تھا ظالم کے پاس
وہی تلوار تھی اس کی وہی سر تھا میرا
غلام مرتضی راہی