میرے لب تک جو نہ آئی وہ دعا کیسی تھی
جانے اس راہ میں مرضئ خدا کیسی تھی
جس کو ہنگامۂ ہستی نے ابھرنے نہ دیا
جس کو ہم سن نہیں پائے وہ صدا کیسی تھی
میرا آئینۂ احساس شکستہ تھا اگر
صورت حال مری تو ہی بتا کیسی تھی
اب جو آزاد ہوئے ہیں تو خیال آیا ہے
کہ ہمیں قید بھلی تھی تو سزا کیسی تھی
لہلہاتا تھا مرے دل کا علاقہ راہیؔ
جانے اس وقت یہاں آب و ہوا کیسی تھی
غزل
میرے لب تک جو نہ آئی وہ دعا کیسی تھی
غلام مرتضی راہی