مری گرفت میں ہے طائر خیال مرا
مگر اڑائے لیے جا رہا ہے جال مرا
یقین اتنا نہیں میرا جتنا نبض کا ہے
مری زبان سے سنتا نہیں وہ حال مرا
کمال کی وہ عمارت مری ہوئی مسمار
کھنڈر کی شکل میں باقی رہا زوال مرا
فضا میں جھونک دے آندھی کے بعد پانی بھی
اڑائی خاک تو اب خون بھی اچھال مرا
زبان اپنی بدلنے پہ کوئی راضی نہیں
وہی جواب ہے اس کا وہی سوال مرا
میں سر کیے ہوئے بیٹھا ہوں اک نئی چوٹی
کچھ اور فاصلے سے دیکھ اب کمال مرا
غزل
مری گرفت میں ہے طائر خیال مرا
غلام مرتضی راہی