راہ سے مجھ کو ہٹا کر لے گیا
جان کا خطرہ بتا کر لے گیا
کٹ مرا اک شخص اپنی آن پر
اور اپنا سر اٹھا کر لے گیا
ایک دن دریا مکانوں میں گھسا
اور دیواریں اٹھا کر لے گیا
ہاتھ سورج کے نہ جب آئی ندی
آگ پانی میں لگا کر لے گیا
اڑتی چنگاری کو جگنو جان کر
طفل دامن میں چھپا کر لے گیا
مدتوں کانٹے بچھائے راہ میں
ایک دن آنکھیں بچھا کر لے گیا
غزل
راہ سے مجھ کو ہٹا کر لے گیا
غلام مرتضی راہی