فراخ دست کا یہ حسن تنگ دستی ہے
جو ایک بوند کی مانند بحر ہستی ہے
وہ جس کو ناپئے تو ٹھہرتی نہیں ہے کہیں
اسی زمین پہ کل کائنات بستی ہے
گھٹا تو جھوم کے آتی ہے آئے دن لیکن
جہاں برسنا ہو کم کم وہاں برستی ہے
زمین کرتی ہے مجھ کو اشارۂ پرواز
مری تمام بلندی رہین پستی ہے
اب اور دیر نہ کر حشر برپا کرنے میں
مری نظر ترے دیدار کو ترستی ہے
جو گرد و پیش سے میں بے نیاز ہوں راہیؔ
اسی میں ہوش ہے مرا اسی میں مستی ہے
![faraKH-dast ka ye husn-e-tang-dasti hai](/images/pic02.jpg)
غزل
فراخ دست کا یہ حسن تنگ دستی ہے
غلام مرتضی راہی