تعبیروں سے بند قبائے خواب کھلے
مجھ پر میرے مستقبل کے باب کھلے
جس کے ہاتھوں بادبان کا زور بندھا
اسی ہوا کے ناخن سے گرداب کھلے
اس نے جب دروازہ مجھ پر بند کیا
مجھ پر اس کی محفل کے آداب کھلے
رہی ہمیشہ گہرائی پر مری نظر
بھید سمندر کے سب زیر آب کھلے
دل کے سوا وہ اور کہیں رہتا ہے اگر
کوئی تو دروازہ در محراب کھلے
غزل
تعبیروں سے بند قبائے خواب کھلے
غلام مرتضی راہی