نہیں ہے بحر و بر میں ایسا میرے یار کوئی
کہ جس خطے کا ملتا ہو نہ دعویدار کوئی
یوں ہی بنیاد کا درجہ نہیں ملتا کسی کو
کھڑی کی جائے گی مجھ پر ابھی دیوار کوئی
پتا چلنے نہیں دیتا کبھی فریادیوں کو
لگا کر بیٹھ جاتا ہے کہیں دربار کوئی
نگاہیں اس کے چہرے سے نہیں ہٹتیں جو دیکھوں
کہ ہے اس کے گلے میں بیش قیمت ہار کوئی
بچاتا پھرتا ہوں دریا میں اپنی کشتیٔ جاں
کبھی اس پار ہے کوئی بھی اس پار کوئی
اسی کا قہر برپا ہے اسی کا فیض جاری
ہر اک مجبور کا ہے مالک و مختار کوئی
کہلوایا ہے اس نے پھاند کر دیوار آ جانا
اگر دروازے پر بیٹھا ہو پہرے دار کوئی
غزل
نہیں ہے بحر و بر میں ایسا میرے یار کوئی
غلام مرتضی راہی