جب دل میں ترے غم نے حسرت کی بنا ڈالی
دنیا مری راحت کی قسمت نے مٹا ڈالی
اب برق نشیمن کو ہر شاخ سے کیا مطلب
جس شاخ کو تاکا تھا وہ شاخ جلا ڈالی
اظہار محبت کی حسرت کو خدا سمجھے
ہم نے یہ کہانی بھی سو بار سنا ڈالی
جینے بھی نہیں دیتے مرنے بھی نہیں دیتے
کیا تم نے محبت کی ہر رسم اٹھا ڈالی
جینے میں نہ اب فانیؔ مرنے میں شمار اپنا
ماتم کی بساط اس نے کیا کہہ کے اٹھا ڈالی
غزل
جب دل میں ترے غم نے حسرت کی بنا ڈالی
فانی بدایونی