عدو کے تاکنے کو تم ادھر دیکھو ادھر دیکھو
مگر ہم تم کو دیکھے جائیں تم چاہو جدھر دیکھو
لڑائی سے یوں ہی تو روکتے رہتے ہیں ہم تم کو
کہ دل کا بھید کہہ دیتی ہے تم چاہو جدھر دیکھو
ادائیں دیکھنے بیٹھے ہو کیا آئینہ میں اپنی
دیا ہے جس نے تم جیسے کو دل اس کا جگر دیکھو
سوال وصل پر کچھ سوچ کر اس نے کہا مجھ سے
ابھی وعدہ تو کر سکتے نہیں ہیں ہم مگر دیکھو
نہ کرنا ترک بیخودؔ محتسب کے ڈر سے مے خواری
کہیں دھبا لگا لینا نہ اپنے نام پر دیکھو
غزل
عدو کے تاکنے کو تم ادھر دیکھو ادھر دیکھو
بیخود دہلوی