گھر سے کس طرح میں نکلوں کہ یہ مدھم سا چراغ
میں نہیں ہوں گا تو تنہائی میں بجھ جائے گا
اظہر عنایتی
ہم عصروں میں یہ چھیڑ چلی آئی ہے اظہرؔ
یاں ذوقؔ نے غالبؔ کو بھی غالب نہیں سمجھا
اظہر عنایتی
ہر ایک رات کو مہتاب دیکھنے کے لیے
میں جاگتا ہوں ترا خواب دیکھنے کے لیے
اظہر عنایتی
آج بھی شام غم! اداس نہ ہو
مانگ کر میں چراغ لاتا ہوں
اظہر عنایتی
اس کار آگہی کو جنوں کہہ رہے ہیں لوگ
محفوظ کر رہے ہیں فضا میں صدائیں ہم
اظہر عنایتی
اس راستے میں جب کوئی سایہ نہ پائے گا
یہ آخری درخت بہت یاد آئے گا
اظہر عنایتی
جہاں ضدیں کیا کرتا تھا بچپنا میرا
کہاں سے لاؤں کھلونوں کی ان دکانوں کو
اظہر عنایتی
جوان ہو گئی اک نسل سنتے سنتے غزل
ہم اور ہو گئے بوڑھے غزل سناتے ہوئے
اظہر عنایتی
جوانوں میں تصادم کیسے رکتا
قبیلے میں کوئی بوڑھا نہیں تھا
اظہر عنایتی