EN हिंदी
گھر کا رستہ جو بھول جاتا ہوں | شیح شیری
ghar ka rasta jo bhul jata hun

غزل

گھر کا رستہ جو بھول جاتا ہوں

اظہر عنایتی

;

گھر کا رستہ جو بھول جاتا ہوں
کیا بتاؤں کہاں سے آتا ہوں

ذہن میں خواب کے محل کی طرح
خود ہی بنتا ہوں ٹوٹ جاتا ہوں

آج بھی شام غم! اداس نہ ہو
مانگ کر میں چراغ لاتا ہوں

میں تو اے شہر کے حسیں رستو
گھر سے ہی قتل ہو کے آتا ہوں

روز آتی ہے ایک شخص کی یاد
روز اک پھول توڑ لاتا ہوں

ہائے گہرائیاں ان آنکھوں کی
بات کرتا ہوں ڈوب جاتا ہوں