یہ بھی رہا ہے کوچۂ جاناں میں اپنا رنگ
آہٹ ہوئی تو چاند دریچے میں آ گیا
اظہر عنایتی
یہ مسخروں کو وظیفے یوں ہی نہیں ملتے
رئیس خود نہیں ہنستے ہنسانا پڑتا ہے
اظہر عنایتی
ہوا اجالا تو ہم ان کے نام بھول گئے
جو بجھ گئے ہیں چراغوں کی لو بڑھاتے ہوئے
اظہر عنایتی
آج شہروں میں ہیں جتنے خطرے
جنگلوں میں بھی کہاں تھے پہلے
اظہر عنایتی
اب مرے بعد کوئی سر بھی نہیں ہوگا طلوع
اب کسی سمت سے پتھر بھی نہیں آئے گا
اظہر عنایتی
عجب جنون ہے یہ انتقام کا جذبہ
شکست کھا کے وہ پانی میں زہر ڈال آیا
اظہر عنایتی
اپنی تصویر بناؤ گے تو ہوگا احساس
کتنا دشوار ہے خود کو کوئی چہرہ دینا
اظہر عنایتی
چوراہوں کا تو حسن بڑھا شہر کے مگر
جو لوگ نامور تھے وہ پتھر کے ہو گئے
اظہر عنایتی
غزل کا شعر تو ہوتا ہے بس کسی کے لیے
مگر ستم ہے کہ سب کو سنانا پڑتا ہے
اظہر عنایتی