اس راستے میں جب کوئی سایہ نہ پائے گا
یہ آخری درخت بہت یاد آئے گا
بچھڑے ہوؤں کی یاد تو آئے گی جیتے جی
موسم رفاقتوں کا پلٹ کر نہ آئے گا
تخلیق اور شکست کا دیکھیں گے لوگ فن
دریا حباب سطح پہ جب تک بنائے گا
ہر ہر قدم پہ آئنہ بردار ہے نظر
بے چہرگی کو کوئی کہاں تک چھپائے گا
میری صدا کا قد ہے فضا سے بھی کچھ بلند
ظالم فصیل شہر کہاں تک اٹھائے گا
تعریف کر رہا ہے ابھی تک جو آدمی
اٹھا تو میرے عیب ہزاروں گنائے گا
غزل
اس راستے میں جب کوئی سایہ نہ پائے گا
اظہر عنایتی