وہ تازہ دم ہیں نئے شعبدے دکھاتے ہوئے
عوام تھکنے لگے تالیاں بجاتے ہوئے
سنبھل کے چلنے کا سارا غرور ٹوٹ گیا
اک ایسی بات کہی اس نے لڑکھڑاتے ہوئے
ابھارتی ہوئی جذبات کو یہ تصویریں
یہ انقلاب ہمارے گھروں میں آتے ہوئے
اسی لیے کہ کہیں ان کا قد نہ گھٹ جائے
سلام کو بھی وہ ڈرتے ہیں ہاتھ اٹھاتے ہوئے
اس آدمی نے بہت قہقہے لگائے ہیں
یہ آدمی جو لرزتا ہے مسکراتے ہوئے
جوان ہو گئی اک نسل سنتے سنتے غزل
ہم اور ہو گئے بوڑھے غزل سناتے ہوئے
ہوا اجالا تو ہم ان کے نام بھول گئے
جو بجھ گئے ہیں چراغوں کی لو بڑھاتے ہوئے
یہی اصول ہے اصلاح حال کا اظہرؔ
کہ پرخلوص ہوں ہم خامیاں گناتے ہوئے
غزل
وہ تازہ دم ہیں نئے شعبدے دکھاتے ہوئے
اظہر عنایتی