EN हिंदी
دیوں سے آگ جو لگتی رہی مکانوں کو | شیح شیری
diyon se aag jo lagti rahi makanon ko

غزل

دیوں سے آگ جو لگتی رہی مکانوں کو

اظہر عنایتی

;

دیوں سے آگ جو لگتی رہی مکانوں کو
مہ و نجوم جلا دیں نہ آسمانوں کو

مرے قبیلے میں کیا شہر بھر سے مل دیکھو
کوئی بھی تیر نہیں دیتا بے کمانوں کو

شکستگی نے گرا دیں سروں پہ دیواریں
مخاصمت تھی مکینوں سے کیا مکانوں کو

یہ سوچتا ہوں وہ کیا حسن کار تیشہ تھا
جو ایسے نقش عطا کر گیا چٹانوں کو

یہی کرے گی کسی سمت کا تعین بھی
اسی ہوا نے تو کھولا ہے بادبانوں کو

جہاں ضدیں کیا کرتا تھا بچپنا میرا
کہاں سے لاؤں کھلونوں کی ان دکانوں کو