دیوں سے آگ جو لگتی رہی مکانوں کو
مہ و نجوم جلا دیں نہ آسمانوں کو
مرے قبیلے میں کیا شہر بھر سے مل دیکھو
کوئی بھی تیر نہیں دیتا بے کمانوں کو
شکستگی نے گرا دیں سروں پہ دیواریں
مخاصمت تھی مکینوں سے کیا مکانوں کو
یہ سوچتا ہوں وہ کیا حسن کار تیشہ تھا
جو ایسے نقش عطا کر گیا چٹانوں کو
یہی کرے گی کسی سمت کا تعین بھی
اسی ہوا نے تو کھولا ہے بادبانوں کو
جہاں ضدیں کیا کرتا تھا بچپنا میرا
کہاں سے لاؤں کھلونوں کی ان دکانوں کو
غزل
دیوں سے آگ جو لگتی رہی مکانوں کو
اظہر عنایتی