EN हिंदी
اظہر عنایتی شیاری | شیح شیری

اظہر عنایتی شیر

40 شیر

آج بھی شام غم! اداس نہ ہو
مانگ کر میں چراغ لاتا ہوں

اظہر عنایتی




آج شہروں میں ہیں جتنے خطرے
جنگلوں میں بھی کہاں تھے پہلے

اظہر عنایتی




اب مرے بعد کوئی سر بھی نہیں ہوگا طلوع
اب کسی سمت سے پتھر بھی نہیں آئے گا

اظہر عنایتی




عجب جنون ہے یہ انتقام کا جذبہ
شکست کھا کے وہ پانی میں زہر ڈال آیا

اظہر عنایتی




اپنی تصویر بناؤ گے تو ہوگا احساس
کتنا دشوار ہے خود کو کوئی چہرہ دینا

اظہر عنایتی




چوراہوں کا تو حسن بڑھا شہر کے مگر
جو لوگ نامور تھے وہ پتھر کے ہو گئے

اظہر عنایتی




غزل کا شعر تو ہوتا ہے بس کسی کے لیے
مگر ستم ہے کہ سب کو سنانا پڑتا ہے

اظہر عنایتی




گھر سے کس طرح میں نکلوں کہ یہ مدھم سا چراغ
میں نہیں ہوں گا تو تنہائی میں بجھ جائے گا

اظہر عنایتی




ہم عصروں میں یہ چھیڑ چلی آئی ہے اظہرؔ
یاں ذوقؔ نے غالبؔ کو بھی غالب نہیں سمجھا

اظہر عنایتی