EN हिंदी
یہ کیا کہ رنگ ہاتھوں سے اپنے چھڑائیں ہم | شیح شیری
ye kya ki rang hathon se apne chhuDaen hum

غزل

یہ کیا کہ رنگ ہاتھوں سے اپنے چھڑائیں ہم

اظہر عنایتی

;

یہ کیا کہ رنگ ہاتھوں سے اپنے چھڑائیں ہم
الزام تتلیوں کے پروں پر لگائیں ہم

ہوتی ہیں روز روز کہاں ایسی بارشیں
آؤ کہ سر سے پاؤں تلک بھیگ جائیں ہم

اکتا گیا ہے ساتھ کے ان قہقہوں سے دل
کچھ روز کو بچھڑ کے اب آنسو بہائیں ہم

کب تک فضول لوگوں پر ہم تجربے کریں
کاغذ کے یہ جہاز کہاں تک اڑائیں ہم

کردار سازیوں میں بہت کام آئیں گے
بچوں کو واقعات بڑوں کے سنائیں ہم

اس کار آگہی کو جنوں کہہ رہے ہیں لوگ
محفوظ کر رہے ہیں فضا میں صدائیں ہم

اظہرؔ سماعتیں ہیں لطیفوں کی منتظر
محفل میں اپنے شعر کسے اب سنائیں ہم