شاخ سے پھول سے کیا اس کا پتہ پوچھتی ہے
یا پھر اس دشت میں کچھ اور ہوا پوچھتی ہے
میں تو زخموں کو خدا سے بھی چھپانا چاہوں
کس لیے حال مرا خلق خدا پوچھتی ہے
چشم انکار میں اقرار بھی ہو سکتا تھا
چھیڑنے کو مجھے پھر میری انا پوچھتی ہے
تیز آندھی کو نہ فرصت ہے نہ یہ شوق فضول
حال غنچوں کا محبت سے صبا پوچھتی ہے
کسی صحرا سے گزرتا ہے کوئی ناقہ سوار
اور مزاج اس کا ہوا سب سے جدا پوچھتی ہے
غزل
شاخ سے پھول سے کیا اس کا پتہ پوچھتی ہے
اسعد بدایونی