عرشؔ کس دوست کو اپنا سمجھوں
سب کے سب دوست ہیں دشمن کی طرف
عرش ملسیانی
عرشؔ پہلے یہ شکایت تھی خفا ہوتا ہے وہ
اب یہ شکوہ ہے کہ وہ ظالم خفا ہوتا نہیں
عرش ملسیانی
بلا ہے قہر ہے آفت ہے فتنہ ہے قیامت ہے
حسینوں کی جوانی کو جوانی کون کہتا ہے
عرش ملسیانی
بس اسی دھن میں رہا مر کے ملے گی جنت
تم کو اے شوخ نہ جینے کا قرینہ آیا
عرش ملسیانی
چمن میں کون ہے پرسان حال شبنم کا
غریب روئی تو غنچوں کو بھی ہنسی آئی
عرش ملسیانی
درد معراج کو پہنچتا ہے
جب کوئی ترجماں نہیں ملتا
عرش ملسیانی
دئے جلائے امیدوں نے دل کے گرد بہت
کسی طرف سے نہ اس گھر میں روشنی آئی
عرش ملسیانی
فرشتے کو مرے نالے یوں ہی بد نام کرتے ہیں
مرے اعمال لکھتی ہیں مری قسمت کی تحریریں
عرش ملسیانی
ہے دیکھنے والوں کو سنبھلنے کا اشارہ
تھوڑی سی نقاب آج وہ سرکائے ہوئے ہیں
عرش ملسیانی