دل فسردہ پہ سو بار تازگی آئی
مگر وہ یاد کہ جا کر نہ پھر کبھی آئی
چمن میں کون ہے پرسان حال شبنم کا
غریب روئی تو غنچوں کو بھی ہنسی آئی
عجب نہ تھا کہ غم دل شکست کھا جاتا
ہزار شکر ترے لطف میں کمی آئی
زمانہ ہنستا ہے مجھ پر ہزار بار ہنسے
تمھاری آنکھ میں لیکن یہ کیوں نمی آئی
دئے جلائے امیدوں نے دل کے گرد بہت
کسی طرف سے نہ اس گھر میں روشنی آئی
ہزار دید پہ پابندیاں تھیں پردے تھے
نگاہ شوق مگر ان کو دیکھ ہی آئی
کسی طرح نہ مٹا عرشؔ داغ کفرانا
ہمارے کام نہ سجدے نہ بندگی آئی
غزل
دل فسردہ پہ سو بار تازگی آئی
عرش ملسیانی