کیا عجب ہے کہ یہ مٹھی میں ہماری آ جائے
آسماں کی طرف اک بار اچھل کر دیکھیں
انجم عرفانی
آبادیوں میں کیسے درندے گھس آئے ہیں
مقتل گلی گلی ہے ہر اک گھر لہو لہو
انجم عرفانی
اس نے دیکھا ہے سر بزم ستم گر کی طرح
پھول پھینکا بھی مری سمت تو پتھر کی طرح
انجم عرفانی
ہر چہرہ ہر رنگ میں آنے لگتا ہے
پیش نظر یادوں کے البم ہوتے ہیں
انجم عرفانی
ہم فنا نصیبوں کو اور کچھ نہیں آتا
خوں شراب کر لینا جسم جام کر لینا
انجم عرفانی
درد دل بانٹتا آیا ہے زمانے کو جو اب تک انجمؔ
کچھ ہوا یوں کہ وہی درد سے دو چار ہوا چاہتا ہے
انجم عرفانی
چراغ چاند شفق شام پھول جھیل صبا
چرائیں سب نے ہی کچھ کچھ شباہتیں تیری
انجم عرفانی
بات کچھ ہوگی یقیناً جو یہ ہوتے ہیں نثار
ہم بھی اک روز کسی شمع پہ جل کر دیکھیں
انجم عرفانی
ادا ہوا نہ کبھی مجھ سے ایک سجدۂ شکر
میں کس زباں سے کروں گا شکایتیں تیری
انجم عرفانی