EN हिंदी
انجم عرفانی شیاری | شیح شیری

انجم عرفانی شیر

23 شیر

درد دل بانٹتا آیا ہے زمانے کو جو اب تک انجمؔ
کچھ ہوا یوں کہ وہی درد سے دو چار ہوا چاہتا ہے

انجم عرفانی




چراغ چاند شفق شام پھول جھیل صبا
چرائیں سب نے ہی کچھ کچھ شباہتیں تیری

انجم عرفانی




بات کچھ ہوگی یقیناً جو یہ ہوتے ہیں نثار
ہم بھی اک روز کسی شمع پہ جل کر دیکھیں

انجم عرفانی




ادا ہوا نہ کبھی مجھ سے ایک سجدۂ شکر
میں کس زباں سے کروں گا شکایتیں تیری

انجم عرفانی




آیا تھا پچھلی رات دبے پاؤں میرے گھر
پازیب کی رگوں میں جھنک چھوڑ کر گیا

انجم عرفانی