EN हिंदी
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق | شیح شیری
hazar KHauf ho lekin zaban ho dil ki rafiq

غزل

ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق

علامہ اقبال

;

ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق

ہجوم کیوں ہے زیادہ شراب خانے میں
فقط یہ بات کہ پیر مغاں ہے مرد خلیق

علاج ضعف یقیں ان سے ہو نہیں سکتا
غریب اگرچہ ہیں رازیؔ کے نکتہ ہاے دقیق

مرید سادہ تو رو رو کے ہو گیا تائب
خدا کرے کہ ملے شیخ کو بھی یہ توفیق

اسی طلسم کہن میں اسیر ہے آدم
بغل میں اس کی ہیں اب تک بتان عہد عتیق

مرے لیے تو ہے اقرار بااللساں بھی بہت
ہزار شکر کہ ملا ہیں صاحب تصدیق

اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی
نہ ہو تو مرد مسلماں بھی کافر و زندیق