چمن کے رنگ و بو نے اس قدر دھوکا دیا مجھ کو
کہ میں نے شوق گل بوسی میں کانٹوں پر زباں رکھ دی
اختر ہوشیارپوری
دیکھا ہے یہ پرچھائیں کی دنیا میں کہ اکثر
اپنے قد و قامت سے بھی کچھ لوگ بڑے ہیں
اختر ہوشیارپوری
دھوپ کی گرمی سے اینٹیں پک گئیں پھل پک گئے
اک ہمارا جسم تھا اختر جو کچا رہ گیا
اختر ہوشیارپوری
گزرتے وقت نے کیا کیا نہ چارہ سازی کی
وگرنہ زخم جو اس نے دیا تھا کاری تھا
اختر ہوشیارپوری
ہمیں خبر ہے کوئی ہم سفر نہ تھا پھر بھی
یقیں کی منزلیں طے کیں گماں کے ہوتے ہوئے
اختر ہوشیارپوری
ہوا میں خوشبوئیں میری پہچان بن گئی تھیں
میں اپنی مٹی سے پھول بن کر ابھر رہا تھا
اختر ہوشیارپوری
جس قدر نیچے اترتا ہوں میں
جھیل بھی گہری ہوئی جاتی ہے
اختر ہوشیارپوری
کب دھوپ چلی شام ڈھلی کس کو خبر ہے
اک عمر سے میں اپنے ہی سائے میں کھڑا ہوں
اختر ہوشیارپوری
اے جلتی رتو گواہ رہنا
ہم ننگے پاؤں چل رہے ہیں
اختر ہوشیارپوری