زمین پر ہی رہے آسماں کے ہوتے ہوئے
کہیں نہ گھر سے گئے کارواں کے ہوتے ہوئے
میں کس کا نام نہ لوں اور نام لوں کس کا
ہزاروں پھول کھلے تھے خزاں کے ہوتے ہوئے
بدن کہ جیسے ہواؤں کی زد میں کوئی چراغ
یہ اپنا حال تھا اک مہرباں کے ہوتے ہوئے
ہمیں خبر ہے کوئی ہم سفر نہ تھا پھر بھی
یقیں کی منزلیں طے کیں گماں کے ہوتے ہوئے
وہ بے نیاز ہیں ہم مستقل کہیں نہ رکے
کسی کے نقش قدم آستاں کے ہوتے ہوئے
ہر ایک رخت سفر کو اٹھائے پھرتا تھا
کوئی مکیں نہ کہیں تھا مکاں کے ہوتے ہوئے
یہ سانحہ بھی مرے آنسوؤں پہ گزرا ہے
نگاہ بولتی تھی ترجماں کے ہوتے ہوئے
ہدایتوں کا ہے محتاج نامہ بر کی طرح
فقیہہ شہر طلسم بیاں کے ہوتے ہوئے
عجیب نور سے رشتہ تھا نور کا اختر
کئی چراغ جلے کہکشاں کے ہوتے ہوئے
غزل
زمین پر ہی رہے آسماں کے ہوتے ہوئے
اختر ہوشیارپوری