کسے خبر جب میں شہر جاں سے گزر رہا تھا
زمیں تھی پہلو میں سورج اک کوس پر رہا تھا
ہوا میں خوشبوئیں میری پہچان بن گئی تھیں
میں اپنی مٹی سے پھول بن کر ابھر رہا تھا
عجیب سرگوشیوں کا عالم تھا انجمن میں
میں سن رہا تھا زمانہ تنقید کر رہا تھا
وہ کیسی چھت تھی جو مجھ کو آواز دے رہی تھی
وہ کیا نگر تھا جہاں میں چپ چاپ اتر رہا تھا
میں دیکھتا تھا کہ انگلیوں میں دیئے کی لو ہے
میں جاگتا تھا کہ رنگ خوابوں میں بھر رہا تھا
یہ بات الگ ہے کہ میں نے جھانکا نہیں گلی میں
یہ سچ ہے کوئی صدائیں دیتا گزر رہا تھا
یہ چندبے حرف وصوت خاکے مرا اثاثہ
میں جن کو غزلوں کا نام دے کر سنور رہا تھا
زمانہ شبنم کے بھیس میں آیا اور دعا دی
میں زرد رت میں جب اپنی باہوں میں مر رہا تھا
مجھے کسی سے نقب زنی کا خطر نہیں تھا
میں اختراپنے ہی جسد خاکی سے ڈر رہا تھا
غزل
کسے خبر جب میں شہر جاں سے گزر رہا تھا
اختر ہوشیارپوری