وہ رتجگاتھا کہ افسون خواب طاری تھا
دیئے کی لو پہ ستاروں کا رقص جاری تھا
میں اس کو دیکھتا تھا دم بخود تھا حیراں تھا
کسے خبر وہ کڑا وقت کتنا بھاری تھا
گزرتے وقت نے کیا کیا نہ چارہ سازی کی
وگرنہ زخم جو اس نے دیا تھا کاری تھا
دیار جاں میں بڑی دیر میں یہ بات کھلی
مرا وجود ہی خود ننگ دوست داری تھا
کسے بتاؤں میں اپنی نوا کی رمز اخترؔ
کہ حرف جو نہیں اترے میں ان کا قاری تھا
غزل
وہ رتجگاتھا کہ افسون خواب طاری تھا
اختر ہوشیارپوری