EN हिंदी
اختر ہوشیارپوری شیاری | شیح شیری

اختر ہوشیارپوری شیر

46 شیر

اے جلتی رتو گواہ رہنا
ہم ننگے پاؤں چل رہے ہیں

اختر ہوشیارپوری




اخترؔ گزرتے لمحوں کی آہٹ پہ یوں نہ چونک
اس ماتمی جلوس میں اک زندگی بھی ہے

اختر ہوشیارپوری




الماری میں تصویریں رکھتا ہوں
اب بچپن اور بڑھاپا ایک ہوئے

اختر ہوشیارپوری




بارہا ٹھٹھکا ہوں خود بھی اپنا سایہ دیکھ کر
لوگ بھی کترائے کیا کیا مجھ کو تنہا دیکھ کر

اختر ہوشیارپوری




چمن کے رنگ و بو نے اس قدر دھوکا دیا مجھ کو
کہ میں نے شوق گل بوسی میں کانٹوں پر زباں رکھ دی

اختر ہوشیارپوری




دیکھا ہے یہ پرچھائیں کی دنیا میں کہ اکثر
اپنے قد و قامت سے بھی کچھ لوگ بڑے ہیں

اختر ہوشیارپوری




دھوپ کی گرمی سے اینٹیں پک گئیں پھل پک گئے
اک ہمارا جسم تھا اختر جو کچا رہ گیا

اختر ہوشیارپوری




گزرتے وقت نے کیا کیا نہ چارہ سازی کی
وگرنہ زخم جو اس نے دیا تھا کاری تھا

اختر ہوشیارپوری




ہمیں خبر ہے کوئی ہم سفر نہ تھا پھر بھی
یقیں کی منزلیں طے کیں گماں کے ہوتے ہوئے

اختر ہوشیارپوری