یہ کہیں عمر گزشتہ تو نہیں تم تو نہیں
کوئی پھرتا ہے سر شہر وفا آوارہ
اختر ہوشیارپوری
یہ کیا کہ مجھ کو چھپایا ہے میری نظروں سے
کبھی تو مجھ کو مرے سامنے بھی لائے وہ
اختر ہوشیارپوری
یہ سرگزشت زمانہ یہ داستان حیات
ادھوری بات میں بھی رہ گئی کمی میری
اختر ہوشیارپوری
زمانہ اپنی عریانی پہ خوں روئے گا کب تک
ہمیں دیکھو کہ اپنے آپ کو اوڑھے ہوئے ہیں
اختر ہوشیارپوری
زندگی مرگ طلب ترک طلب اخترؔ نہ تھی
پھر بھی اپنے تانے بانے میں مجھے الجھا گئی
اختر ہوشیارپوری
کچے مکان جتنے تھے بارش میں بہہ گئے
ورنہ جو میرا دکھ تھا وہ دکھ عمر بھر کا تھا
اختر ہوشیارپوری
اخترؔ گزرتے لمحوں کی آہٹ پہ یوں نہ چونک
اس ماتمی جلوس میں اک زندگی بھی ہے
اختر ہوشیارپوری
الماری میں تصویریں رکھتا ہوں
اب بچپن اور بڑھاپا ایک ہوئے
اختر ہوشیارپوری
بارہا ٹھٹھکا ہوں خود بھی اپنا سایہ دیکھ کر
لوگ بھی کترائے کیا کیا مجھ کو تنہا دیکھ کر
اختر ہوشیارپوری