EN हिंदी
خواہشیں اتنی بڑھیں انسان آدھا رہ گیا | شیح شیری
KHwahishen itni baDhin insan aadha rah gaya

غزل

خواہشیں اتنی بڑھیں انسان آدھا رہ گیا

اختر ہوشیارپوری

;

خواہشیں اتنی بڑھیں انسان آدھا رہ گیا
خواب جو دیکھا نہیں وہ بھی ادھورا رہ گیا

میں تو اس کے ساتھ ہی گھر سے نکل کر آ گیا
اور پیچھے ایک دستک ایک سایا رہ گیا

اس کو تو پیراہنوں سے کوئی دلچسپی نہ تھی
دکھ تو یہ ہے رفتہ رفتہ میں بھی ننگا رہ گیا

رنگ تصویروں کا اترا تو کہیں ٹھہرا نہیں
اب کے وہ بارش ہوئی ہر نقش پھیکا رہ گیا

عمر بھر منظر نگاری خون میں اتری رہی
پھر بھی آنکھوں کے مقابل ایک دریا رہ گیا

رونقیں جتنی تھیں دہلیزوں سے باہر آ گئیں
شام ہی سے گھر کا دروازہ کھلا کیا رہ گیا

اب کے شہر زندگی میں سانحہ ایسا ہوا
میں صدا دیتا اسے وہ مجھ کو تکتا رہ گیا

تتلیوں کے پر کتابوں میں کہیں گم ہو گئے
مٹھیوں کے آئینے میں ایک چہرہ رہ گیا

ریل کی گاڑی چلی تو اک مسافر نے کہا
دیکھنا وہ کوئی اسٹیشن پہ بیٹھا رہ گیا

میں نہ کہتا تھا کہ عجلت اس قدر اچھی نہیں
ایک پٹ کھڑکی کا آ کر دیکھ لو وا رہ گیا

لوگ اپنی کرچیاں چن چن کے آگے بڑھ گئے
میں مگر سامان اکٹھا کرتا تنہا رہ گیا

آج تک موج ہوا تو لوٹ کر آئی نہیں
کیا کسی اجڑے نگر میں دیپ جلتا رہ گیا

انگلیوں کے نقش گل دانوں پہ آتے ہیں نظر
آؤ دیکھیں اپنے اندر اور کیا کیا رہ گیا

دھوپ کی گرمی سے اینٹیں پک گئیں پھل پک گئے
اک ہمارا جسم تھا اخترؔ جو کچا رہ گیا