EN हिंदी
اختر ہوشیارپوری شیاری | شیح شیری

اختر ہوشیارپوری شیر

46 شیر

خواہشیں خون میں اتری ہیں صحیفوں کی طرح
ان کتابوں میں ترے ہاتھ کی تحریر بھی ہے

اختر ہوشیارپوری




کسے خبر کہ گہر کیسے ہاتھ آتے ہیں
سمندروں سے بھی گہری ہے خامشی میری

اختر ہوشیارپوری




کسی سے مجھ کو گلہ کیا کہ کچھ کہوں اخترؔ
کہ میری ذات ہی خود راستے کا پتھر ہے

اختر ہوشیارپوری




کچھ اتنے ہو گئے مانوس سناٹوں سے ہم اخترؔ
گزرتی ہے گراں اپنی صدا بھی اب تو کانوں پر

اختر ہوشیارپوری




کچھ مجھے بھی یہاں قرار نہیں
کچھ ترا غم بھی در بہ در ہے یہاں

اختر ہوشیارپوری




کیا لوگ ہیں کہ دل کی گرہ کھولتے نہیں
آنکھوں سے دیکھتے ہیں مگر بولتے نہیں

اختر ہوشیارپوری




لوگ نظروں کو بھی پڑھ لیتے ہیں
اپنی آنکھوں کو جھکائے رکھنا

اختر ہوشیارپوری




میں اب بھی رات گئے اس کی گونج سنتا ہوں
وہ حرف کم تھا بہت کم مگر صدا تھا بہت

اختر ہوشیارپوری




میں اپنی ذات کی تشریح کرتا پھرتا تھا
نہ جانے پھر کہاں آواز کھو گئی میری

اختر ہوشیارپوری