EN हिंदी
احمد ندیم قاسمی شیاری | شیح شیری

احمد ندیم قاسمی شیر

46 شیر

اک سفینہ ہے تری یاد اگر
اک سمندر ہے مری تنہائی

احمد ندیم قاسمی




آغوش میں مہکوگے دکھائی نہیں دو گے
تم نکہت گلزار ہو ہم پردۂ شب ہیں

احمد ندیم قاسمی




غم جاناں غم دوراں کی طرف یوں آیا
جانب شہر چلے دختر دہقاں جیسے

احمد ندیم قاسمی




فریب کھانے کو پیشہ بنا لیا ہم نے
جب ایک بار وفا کا فریب کھا بیٹھے

احمد ندیم قاسمی




دل گیا تھا تو یہ آنکھیں بھی کوئی لے جاتا
میں فقط ایک ہی تصویر کہاں تک دیکھوں

احمد ندیم قاسمی




بھری دنیا میں فقط مجھ سے نگاہیں نہ چرا
عشق پر بس نہ چلے گا تری دانائی کا

احمد ندیم قاسمی




انداز ہو بہو تری آواز پا کا تھا
دیکھا نکل کے گھر سے تو جھونکا ہوا کا تھا

احمد ندیم قاسمی




عجب تضاد میں کاٹا ہے زندگی کا سفر
لبوں پہ پیاس تھی بادل تھے سر پہ چھائے ہوئے

احمد ندیم قاسمی




آخر دعا کریں بھی تو کس مدعا کے ساتھ
کیسے زمیں کی بات کہیں آسماں سے ہم

احمد ندیم قاسمی