تیری محفل بھی مداوا نہیں تنہائی کا
کتنا چرچا تھا تری انجمن آرائی کا
داغ دل نقش ہے اک لالۂ صحرائی کا
یہ اثاثہ ہے مری بادیہ پیمائی کا
جب بھی دیکھا ہے تجھے عالم نو دیکھا ہے
مرحلہ طے نہ ہوا تیری شناسائی کا
وہ ترے جسم کی قوسیں ہوں کہ محراب حرم
ہر حقیقت میں ملا خم تری انگڑائی کا
افق ذہن پہ چمکا ترا پیمان وصال
چاند نکلا ہے مرے عالم تنہائی کا
بھری دنیا میں فقط مجھ سے نگاہیں نہ چرا
عشق پر بس نہ چلے گا تری دانائی کا
ہر نئی بزم تری یاد کا ماحول بنی
میں نے یہ رنگ بھی دیکھا تری یکتائی کا
نالہ آتا ہے جو لب پر تو غزل بنتا ہے
میرے فن پر بھی ہے پرتو تری رعنائی کا
غزل
تیری محفل بھی مداوا نہیں تنہائی کا
احمد ندیم قاسمی