جانے کہاں تھے اور چلے تھے کہاں سے ہم
بیدار ہو گئے کسی خواب گراں سے ہم
اے نو بہار ناز تری نکہتوں کی خیر
دامن جھٹک کے نکلے ترے گلستاں سے ہم
پندار عاشقی کی امانت ہے آہ سرد
یہ تیر آج چھوڑ رہے ہیں کماں سے ہم
آؤ غبار راہ میں ڈھونڈیں شمیم ناز
آؤ خبر بہار کی پوچھیں خزاں سے ہم
آخر دعا کریں بھی تو کس مدعا کے ساتھ
کیسے زمیں کی بات کہیں آسماں سے ہم
غزل
جانے کہاں تھے اور چلے تھے کہاں سے ہم
احمد ندیم قاسمی